(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
یقین وہ در ہے جو نظر نہیں آتا، مگر کھلنے پر ہر راہ روشن کر دیتا ہے۔
یہ وہ گزرگاہ ہے جہاں دیواریں خود کو راستے میں تحلیل کر لیتے ہیں، اور زمین قدموں تلے خاموشی سے سرک جاتی ہے۔
یہ وہ خلا ہے جہاں ہوائیں سوال بن کر رک جاتی ہیں، اور وقت سائے کی طرح کسی انجانے خوف میں دبک جاتا ہے۔
مگر کیا ہر دیوار کے اس پار روشنی کی کوئی لکیر نہیں؟
کیا ہر قید میں آزادی کی کوئی سانس محبوس نہیں؟
کیا ہر اندھیرے کے اندر روشنی کی کوئی ننھی چنگاری نہیں سُلگتی؟
یقین وہ در ہے جسے دستک کی نہیں، درویشی کی ضرورت ہوتی ہے۔
مایوسی وہ دریچہ ہے جس کے اس پار امید کے چراغ ہمیشہ سے روشن ہیں۔
یہ وہ شب ہے جس کی گلیوں میں چراغ خاموش نہیں کیے جاتے، بلکہ صبر کے تیل سے جلائے جاتے ہیں۔
یہ وہ سفر ہے جس کے ہر موڑ پر صبح کسی خاموش مہرباں کی طرح کھڑی ہوتی ہے۔
وقت وہ راز ہے جو اپنے مقررہ لمحے پر منکشف ہوتا ہے۔
اور جب وہ لمحہ آتا ہے تو اندھیروں کے پردے سرک جاتے ہیں، جیسے صبح رات کی چادر کو آہستہ آہستہ سمیٹتی ہے۔
چراغ جل اٹھتے ہیں، پتھر موم ہو جاتے ہیں، پیشانیاں سجدوں سے معتبر ہو جاتی ہیں۔
اور زندگی، جو برسوں سے اندھیری راہوں کے سوال میں کھڑی تھی، جواب بن کر روشنی میں آ جاتی ہے۔
مایوسی زخم ہے، مگر ہر زخم کی پسلیوں میں امید کا دل دھڑکتا ہے۔
کبھی سمندر پار کرنے کے لیے کشتیاں جلانی پڑتی ہیں، تاکہ واپسی کا ہر امکان خاک ہو جائے اور کامیابی عاجزی کے ساتھ قدموں میں آ بیٹھے۔
کامیابی کسی مقام پر نہیں، کسی مزاج میں بستی ہے۔
اگر آرزو پوری نہ ہو، تو بے آرزو ہونے کی آرزو پیدا کر لو۔
کیونکہ بعض شکستیں ایسی ہوتی ہیں جو تاج اُتارتی نہیں، سر بلند کر دیتی ہیں۔
کربلا کا آسمان گواہ ہے—کہ جو سر سجدے میں کٹ جائے، وہ تاج والوں سے زیادہ بلند ہوتا ہے۔
“کہ جو خون زمیں پر گرتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے روشنی کی تقدیر لکھتا ہے۔”
کہ تاریکی کی کوکھ سے جنم لینے والا نور، کائنات کی پیشانی پر سورج بن کر چمکتا ہے۔
سو، چلتے رہو۔
راستے اپنے ہونے کا ثبوت خود دے دیں گے۔
دنیا کے خلاف فریاد نہ کرو، بلکہ ایسا جیو کہ کوئی تمہارے خلاف فریاد نہ کرے۔
“دوسروں کے دل میں چراغ جلاؤ، تمہارا نصیب خود روشنی بن جائے گا۔”
“کہ شاید یہی وہ راز ہے جسے ہم ’زندگی‘ کہتے ہیں۔”