دلِ ویراں شہر کے آثار بولیں گے
خاموش کہانی کے کردار بولیں گے
تنہائی کو حاصل ہو گا اعجاز اک دن
اسی زنداں کے در و دیوار بولیں گے
تمام عمر مرے غم محرم راز رہے ہیں
روزِ محشر یہی طرف دار بولیں گے
درد کے سانچے میں جو ڈھل رہے ہیں
میں چپ ہو جاؤں گا اشعار بولیں گے
انہی کے دم سے تھا معیارِ وفا قائم
اپنے تو اپنے ہیں نعیم اغیار بولیں گے