دل کے دریا میں ہم اترتے ہیں

غزل

دل کے دریا میں ہم اترتے ہیں
کب کسی پر کوئی حرف دھرتے ہیں

صوفی مزاج لوگ ہیں ہم تو یارو
درد بڑھ جائے تو رقص کرتے ہیں

حرف شکوہ نہیں ہماری لغت میں
آنسوؤں کے ساتھ بھی مسکراتے ہیں

وقت کی قید میں ہم رہتے ہیں آزاد
زندگی کے ہر ایک پل کو جیتے ہیں

دل کی گہرائی سے کرتے ہیں دعا
تب کہیں جا کے نعیم زخم سنورتے ہیں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top