دل کی دہلیز کبھی جو پار کرو گے
یاد رکھنا خود کو سرِ بازار کرو گے
صفات تک نہ رسائی ہو گی
گر عقل کو پہرہ دار کرو گے
زخم کھا کر بھی جو ہنس رہا ہے
اس کی جیت کا تم اقرار کرو گے
تمہارے قدموں کی زباں سمجھے گا
گر راستے پر اعتبار کرو گے
برف کے پاٹ لیے دھوپ میں بیٹھے ہو
کیا خوب، نعیم، کاروبار کرو گے