دل کی مسجد اور باطن کا وِرد

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

دل کوئی مٹی کا بنا ہوا کچا گھر نہیں، یہ ایک باطنی مسجد ہے—ایسی مسجد جس کی دیواریں خاموشی سے بنی ہیں، جس کا قبلہ ذات کے عرفان کی سمت ہے، اور جس میں اذانیں لفظوں کی نہیں، کیفیتوں کی ہوتی ہیں۔

ہم اسی دل کی مسجد میں بیٹھے ہیں، جہاں نہ کوئی خطیب ہے، نہ کوئی ظاہری مصلّٰی، لیکن ایک جاپ جاری ہے—ایسا جاپ جو زمان و مکان سے آزاد ہے۔ یہ ذکر نہ زبان پر آتا ہے، نہ الفاظ میں ڈھلتا ہے۔ یہ دل کی گہرائیوں میں ایسے بہتا ہے جیسے کسی گمشدہ سُر کی بازگشت، جیسے روح خود کو پکار رہی ہو۔

“ہم خود ہی پردہ ہیں، اور خود ہی عاشق”—یہ کوئی مجازی خیال نہیں، یہ ایک سچ ہے جو صوفی کے سینے میں دھڑکتا ہے۔
یہاں دوئی کا تصور فنا ہو چکا ہے۔ یہاں عشق، عاشق اور معشوق ایک ہی وحدت کی تین صورتیں ہیں، جو ہر لمحہ ایک دوسرے میں ضم ہو رہی ہیں۔

یہ پردہ بھی ہم نے خود اپنے دل پر ڈالا، تاکہ جب وقت آئے، اسے خود ہی ہٹا کر دیدار کا پہلا لمحہ محسوس کیا جا سکے۔ یہ انتظار کی گھڑیاں بھی ہماری ایجاد ہیں، اور ان کی لذت بھی ہمارے ہی باطن کی خلوت سے جنم لیتی ہے۔

جب انسان اس کیفیت تک پہنچتا ہے کہ وہ اپنے اندر ہی معشوق کو دیکھنے لگے، تو وہ نہ کسی بت خانے کا رہتا ہے، نہ کسی مندر یا مسجد کا۔ وہ صرف دل کا ہوتا ہے، اور دل اُس کا۔

یہ وہ “وکّھرا جاپ” ہے جسے نہ عقل سمجھ پاتی ہے، نہ منطق باندھ سکتی ہے۔
یہ جاپ ایک فنا کی صورت ہے، جس میں ذات کی حدود مٹ جاتی ہیں،
اور باقی رہ جاتا ہے فقط “تو”—
ایک ایسا “تو” جو اب بھی “میں” کی تہہ میں پوشیدہ ہے،
اور ایک ایسا “میں” جو دیر سے “تو” بننے کا راستہ دیکھ رہا ہے۔

یہی تو ہے اصل سجدہ—جب دل کی مسجد میں خود کو سجدہ کیا جائے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top