(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
معاشرتی تانے بانے میں انسانی جذبات کو روایات اور عقائد کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ دکھ اگر قابلِ قبول سانچے میں ڈھل جائے تو ہمدردی اور تقدیس کا درجہ پا لیتا ہے، مگر جیسے ہی کوئی شخص اپنی تکلیفوں سے نکلنے کی کوشش کرے، وہی معاشرہ اسے واپس اسی اذیت میں دھکیلنے کی خواہش رکھتا ہے، جیسے دکھ ہی اس کی پہچان ہو۔
دوسری جانب، وہ غم جو روایتی یا مذہبی سانچوں سے متصادم ہوں، انہیں جرم کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ اس کے درد کو گناہ کی مہر لگا کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ وہ جتنا زیادہ جیتنے کی کوشش کرے، اتنا ہی زیادہ تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وجود کو ایک مقدس مگر بے کس وحدت میں محسوس کرنے لگے۔
یہ رویے بے حسی کی انتہا ہیں، جہاں دکھوں کو اپنے اپنے معیارات کے مطابق پرکھا جاتا ہے۔ ہم اپنی ہی روایات کے خنجر سے زخم دیتے ہیں، پھر انہی زخموں پر آنسو بہا کر خود کو رحمدل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ سستی عبادت کی ایک شکل ہے، جہاں ہم اپنی ہی بنائی ہوئی دیواروں میں قید ہو کر سوچتے ہیں کہ آزاد ہیں۔