دکھ کا جو بھی جہاں میں کسی کے مداوا ٹھرا
وہ ہی شخص اندھیرے میں یدِ بیضا ٹھرا
وہ مجھے اپنے ہاتھ کی میل سمجھ بیٹھا تھا
اور میں اسی کے دائیں ہاتھ کی ریکھا ٹھرا
پیتا رہا ہوں آنسوؤں کے سیلِ رواں برسوں
شاید اسی باعث بہتا ہوا دریا ٹھرا
ہر کوئی پھینکتا ہے پتھر جو ادھر آتا ہے
جیسے میں کسی کی کھڑکی کا شیشہ ٹھرا
اڑتی دھول میں کچھ بھی نظر نہیں آتا جہاں پر
کھلنے کو وہاں پر ہی نعیم اک راستہ ٹھرا