دنیا: ایک دارالامتحان، نہ کہ میزانِ عدل

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

دنیا کی بنیاد کبھی عدلِ کامل پر نہیں رکھی گئی — اور نہ ہی رکھی جا سکتی تھی۔
کیونکہ اگر کائنات کے پردے پر ازل ہی سے میزانِ عدل پوری قوت سے قائم ہوتی تو آزمائش کا باب سرے سے کھل ہی نہ سکتا۔
پھر فرعون کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے اس کا نامۂ اعمال اس کا سامنا کرتا، اور مظلوم کے آنسو ابھی پلک سے ٹپکتے نہیں کہ اس کے حق میں آسمانی بجلی ظالم پر گرج اٹھتی۔
مگر ایسا نہیں ہوا، اور نہ ہونا تھا۔
دنیا کی اصل ساخت میں آزادی، اختیار، پردہ اور مہلت کا ایسا گہرا جال بُنا گیا ہے کہ ہر انسان اپنے وجود کے نہاں خانوں میں چھپی نیتوں، خواہشوں اور رجحانات کے مطابق اپنے راستے خود تراش سکے۔
یہی وہ شعوری خلا ہے جہاں امتحان کا سارا کھیل رچایا گیا ہے۔
عدل یہاں ہے، مگر پسِ پردہ — برسرِ زمین نہیں، عرشِ الٰہی پر ہے۔
دنیا میں تو بسا اوقات
خنجر کی دھار پر رقصاں حق،
اور تختِ زر پر براجمان باطل نظر آتا ہے۔
مگر یہ سب اس لیے ہے کہ انسان صرف مشاہدے کا اسیر نہ بنے، بلکہ یقین کے افق پر پرواز کرے۔
قرآن کی صدائیں بار بار بتاتی ہیں:
لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
“تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے”
یہ دنیا امتحان کا ایک وسیع اور پُرپیچ میدان ہے۔
یہاں ہر لمحہ ایک سوال ہے، ہر واقعہ ایک پرچۂ آزمائش۔
کبھی خوشی دے کر آزمایا جاتا ہے کہ شکر ادا کرو گے یا غفلت کا شکار ہو گے،
اور کبھی دکھ دے کر پرکھا جاتا ہے کہ صبر کرو گے یا شکوے کی آگ میں جل اٹھو گے۔
جو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں فی الفور عدل قائم کیوں نہیں ہوتا — وہ حقیقتِ ہستی کے بنیادی راز سے بے خبر ہیں۔
فی الحال اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عمل کی پوری آزادی دے رکھی ہے تاکہ ان کے باطن کا سچ پوری طرح عیاں ہو سکے۔
اگر عدل فوراً نازل ہو جائے تو کون ظالم بننے کی جرأت کرے؟ اور کون نیک بننے کے لیے دل سے جدو جہد کرے؟
پھر تو سب صرف سزا یا جزا کے خوف کے تابع محض روبوٹ بن جائیں — اور شعوری انتخاب کی قندیلیں گل ہو جائیں۔
نہیں — ربّ العالمین نے انسان کو
عقل دی،
دل دیا،
ضمیر دیا،
اور اختیار دیا — تاکہ وہ اپنی فطرت کے جوہر دکھا سکے۔
اسی لیے یہاں کئی بار ظلم پنپتا نظر آتا ہے، حق دب جاتا ہے، معصومیت روندی جاتی ہے۔
مگر یہ سب عارضی ہے، دھوکہ ہے۔
حقیقی میزانِ عدل یومِ حساب پر برپا ہو گا،
جہاں نہ کوئی طاقتور اپنے لشکر کے بل بوتے پر بچ سکے گا،
نہ کوئی کمزور اپنے آنسو بہا کر حق چھپا سکے گا۔
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ
ذرّہ برابر بھی کوئی نیکی یا بدی ہو گی — سب سامنے آجائے گی۔
یہ ہے وہ کامل عدل جو یہاں کا مقدر نہیں، بلکہ آخرت کا وعدہ ہے۔
تو اے مسافرِ راہِ حق،
دنیا کی بے انصافیوں پر بے چین نہ ہو،
یہاں کے پیمانوں سے ابدی حق کو نہ تول۔
جان لے کہ یہاں تیرا کام سچ بولنا ہے، حق پر کھڑے ہونا ہے، صبر کرنا ہے، شکر بجا لانا ہے — اور آخرت کے میزانِ عدل پر کامل یقین رکھنا ہے۔
دنیا دھوکے کی ایک چمکتی ہوئی جھلک ہے۔
اصل اجالا ابھی آنا باقی ہے۔
پس امتحان کے اس پل صراط پر — خالص نیت اور سچے عمل کے چراغ جلا لے، تاکہ اندھیری رات میں تیرے قدم نہ ڈگمگائیں۔
جو دنیا میں ہر لمحہ انصاف کا طلبگار ہے، وہ دنیا کی حکمت سے ناآشنا ہے۔ یہاں عدل کا موقع نہیں — کردار کا امتحان ہے۔ یہاں صبر ہی اصل جیت ہے، اور یقین ہی اصل سرمایہ۔ جو یہ راز جان لے، وہ دنیا کے تھپیڑوں میں بھی مسکراتا رہے۔
اے ربّ العالمین! ہمیں اس عارضی دنیا کے فریب سے بچا کر، صبر و حکمت کے زیور سے آراستہ فرما، اور ہمارے دلوں کو اس دن کے یقین سے بھر دے جب تو اپنی کامل عدالت قائم کرے گا،
اور ہر مظلوم کے آنسو کا حساب لے گا، ہر نیکی کا وزن کرے گا — اور تیرے انصاف کے جلوے ظہور کریں گے۔ آمین۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top