(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
دنیا کو دیکھنے کے دو زاویے ہیں—ایک وہ جو ہمیں نظر آتا ہے، اور ایک وہ جو ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ جو نظر آتا ہے، وہ حقیقت ہے؛ جو محسوس ہوتا ہے، وہ رومان ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت اور رومانوی تصور دو الگ دنیائیں ہیں، یا یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟
حقیقت بے رنگ ہو سکتی ہے، مگر انسان کے اندر وہ صلاحیت رکھی گئی ہے جو اسے رنگ دے سکتی ہے۔ محبت، حیرت، تجسس، خوف، امید—یہ سب دنیا کو ہمارے لیے ایک جادوئی تجربہ بنا دیتے ہیں۔ اگر ہم صرف مادی آنکھ سے دیکھیں تو درخت لکڑی کا ایک وجود ہے، ہوا کی سرسراہٹ محض ایک سائنسی مظہر، اور آسمان ایک بے حد و حساب خلا۔ مگر وہی درخت کسی کے لیے زندگی کی علامت بن جاتا ہے، وہی ہوا کسی کے کانوں میں سرگوشی کرتی ہے، اور وہی آسمان کسی عاشق کے دل میں وسعت کا استعارہ بن جاتا ہے۔
یہی وہ رومانوی رنگ ہے جو دنیا کو ایک سادہ مادی تجربے سے بلند کر کے ایک متحرک، جیتی جاگتی حقیقت بنا دیتا ہے۔ مگر یہاں ایک تضاد بھی ہے—کیا ہم دنیا کو اس کے اصل رنگ میں دیکھ رہے ہیں، یا ہم اپنے خوابوں کے شیشے میں ایک جھوٹا عکس دیکھ رہے ہیں؟
رومانویت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ حقیقت کو خواب بنا سکتی ہے، مگر سب سے بڑی خوبصورتی بھی یہی ہے کہ وہ خواب کو حقیقت بنا سکتی ہے۔ ایک عاشق کے لیے محبوب ایک عام انسان نہیں، بلکہ ایک خیال ہے، ایک تجربہ ہے، ایک کائنات ہے۔ ایک صوفی کے لیے خدا محض ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ایک قربت ہے، ایک روشنی ہے، ایک راز ہے۔ ایک شاعر کے لیے دنیا زمین و آسمان کا نام نہیں، بلکہ وہ جذبات کا وہ سمندر ہے جہاں ہر چیز میں ایک موسیقی ہے، ایک درد ہے، ایک لافانیت ہے۔
جب ہم دنیا کو رومانوی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہم دراصل اپنی حواس کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں—یہ تربیت ہمیں معمولی میں غیرمعمولی دیکھنے کا ہنر سکھاتی ہے، عام چیزوں میں مقدس کی جھلک دکھاتی ہے، اور فانی چیزوں میں لافانیت کے آثار نمایاں کرتی ہے۔ یہ وہ نظر ہے جو ایک چراغ کی لو میں کائنات کی روشنی دیکھ سکتی ہے، ایک لفظ میں پوری تاریخ کا عکس پا سکتی ہے، اور ایک لمحے میں ازل و ابد کو قید کر سکتی ہے۔
لیکن سوال وہی ہے—یہ دنیا حقیقت ہے یا ایک فریب؟
شاید اس کا جواب یہی ہے کہ حقیقت وہی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم صرف مادی آنکھ سے دیکھیں گے تو دنیا ایک بے روح حقیقت رہے گی۔ اگر ہم روح کی آنکھ سے دیکھیں گے تو یہی دنیا ایک خواب، ایک معجزہ، ایک داستان بن جائے گی۔ اور شاید، زندگی کا اصل فن یہی ہے کہ ہم اس خواب اور حقیقت کے درمیان ایک ایسا توازن پیدا کریں، جہاں دنیا اپنی سچائی میں بھی خوبصورت رہے، اور اپنے جادو میں بھی حقیقت کا عکس لیے ہوئے ہو۔