اہلِ خرد اسی پشیمانی سے مر جائیں گے

غزل

اہلِ خرد اسی پشیمانی سے مر جائیں گے
ہم جو اک روز نادانی سے مر جائیں گے

بہشت میں اسبابِ لذت کم کر میرے مولا
ترسے ہوئے ذاھد فراوانی سے مر جائیں گے

تیری جنت میں اگر اپنے گھر کی یاد آ گئی
اک بار پھر اسی پریشانی سے مر جائیں گے

دیواروں سے تصویریں بھی ہٹا دی تم نے
سوچنا تھا دل تری ویرانی سے مر جائیں گے

اذیتیں تو ہمیں راس آ گئی ہیں نعیم
خوشی مل جائے تو آسانی سے مر جائیں گے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top