عید، ہجر، اور چاند کی گواہی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

چاند نے پھر گواہی دی ہے کہ دیس کے آنگن میں عید اتری ہے، مگر پردیس کے آسمان پر یادوں کے چراغ بجھے بجھے ہیں۔ یہاں کی راتیں ایسے ہیں جیسے کسی ویران مسجد میں اذان دی جائے، مگر کوئی نمازی نہ ہو۔ ہجرت کے اس جنگل میں، جہاں وقت پتوں کی طرح جھڑتا ہے، وہاں اپنوں کی ہنسی کا موسم خواب لگتا ہے۔

اے دیس کے مقدس چراغو! تمہاری چوکھٹوں پر جو سجدے رکھے، وہ اب مسافت کی گرد میں چھپ گئے ہیں۔ تمہاری گلیوں کی خاک جو قدم چومتی تھی، آج اجنبی زمین پر بھٹک رہی ہے۔ محبت کے وہ دسترخوان جہاں قہقہے چنتے تھے، یہاں تنہائی کی راکھ میں دبے ہیں۔

میری دعائیں تمہارے آنگن میں خوشیوں کے درخت اگائیں، تمہارے دلوں میں سکون کی بارش ہو۔ بس اتنی تمنا ہے کہ جب عید کی پہلی روشنی تمہارے چہروں کو چھوئے، تو میری یاد کو بھی دعاؤں کی چادر میں لپیٹ لینا۔ کہ پردیس میں عید، بس ہجر کے ماتھے کا ایک اور داغ ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top