عشق تو ڈھال ہے مرشد
یہی تو اسکا کمال ہے مرشد
خوش لباسوں کی ہے سحر
برہنہ تن کی رات شال ہے مرشد
میرے کاسے میں تعبیر ڈال
ہاتھ جوڑ کے سوال ہے مرشد
ہجر اپنا مجھے دان کیا ہے
کمال ہے مرشد، کمال ہے مرشد
آواز دے کے دیکھنا ساحل سے
نعیم نہ پلٹے مجال ہے مرشد