فطرت، معاشرت اور نفس کی گتھی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ سوال صدیوں سے انسانی شعور کو جھنجھوڑتا آیا ہے۔ ہر دور کے مفکرین نے اپنے زاویے سے اس معمے کو سلجھانے کی کوشش کی، مگر سچ شاید کبھی مکمل طور پر گرفت میں نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی ایک ہی وقت میں فطرت، معاشرت اور نفس کی پیچیدہ گتھی ہے، جو بیک وقت ہماری بقا، سماجی وجود اور اندرونی کشمکش کو جلا بخشتی ہے۔

فطرت کے قانون میں طاقتور کا غلبہ ہے۔ ہر لمحہ بدلتی ہوئی دنیا میں وہی باقی رہتا ہے جو خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ یہ کائنات کی سب سے بنیادی سچائی ہے۔ لیکن اگر زندگی کو صرف بقا کی جنگ سمجھا جائے تو انسان اور حیوان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ انسان نے فطرت کے ساتھ ساتھ ایک معاشرت بھی تخلیق کی ہے، جہاں انصاف، محبت اور تعاون کی قدریں پنپتی ہیں۔

معاشرت کی حقیقت مگر اتنی سادہ نہیں۔ یہ بھی طاقت کی جنگ کا دوسرا میدان بن جاتی ہے۔ دولت اور مراعات کی غیر منصفانہ تقسیم نے انسانیت کو طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ محنت کش پِستا ہے جبکہ مراعات یافتہ طبقہ اپنی دیواریں بلند کرتا چلا جاتا ہے۔ جب تک اس معاشی عدم توازن کو ختم نہ کیا جائے، امن اور خوشحالی کا خواب محض ایک سراب ہی رہے گا۔

مگر کیا یہ سب کچھ ہی زندگی ہے؟ کیا فطرت اور معاشرت ہی انسانی وجود کی واحد جہتیں ہیں؟ زندگی کی سب سے پیچیدہ گتھی تو خود انسان کے اندر چھپی ہے—اس کا نفس، اس کے لاشعور کی پیچیدہ زنجیریں۔ ہماری ہر سوچ، ہر حرکت کسی نہ کسی اندرونی خواہش یا خوف سے جڑی ہوتی ہے۔ جب تک انسان اپنے نفس کے اندھیروں کو نہیں سمجھے گا، وہ باہر کی دنیا کو کبھی مکمل طور پر بدل نہیں سکتا۔

زندگی کا کمال شاید انہی تین سطحوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں ہے۔ فطرت کے تقاضوں کو سمجھنا، معاشرت میں انصاف قائم کرنا اور اپنے اندرونی نفس کو سنوارنا—یہی وہ سفر ہے جو انسان کو مکمل بناتا ہے۔

لیکن کیا یہ توازن حاصل کرنا ممکن ہے؟ شاید نہیں۔ یا شاید اسی جستجو میں زندگی کا اصل حسن چھپا ہے۔ ہر سوال ایک نئے سوال کو جنم دیتا ہے، ہر جواب ایک نئی پیچیدگی کو۔ زندگی کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ ایک مسلسل مکالمہ ہے—فطرت، معاشرت اور نفس کے درمیان۔ یہی مکالمہ زندگی کو آفاقی بناتا ہے، اور یہی مکالمہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top