گرمئی رخسار سے خال خال جلتا رہا
تیرے قُرب میں لمحہ لمحہ وصال جلتا رہا
ہجر جب بھی تیرا لکھا میں نے
حروف سلگتے رہے، خیال جلتا رہا
ایک وہ کہ لمحے بھی بھاری جس پر
ایک میں کہ سالہاسال جلتا رہا
چاندنی کی تمنا سلگتی رہی
جواب بجھتا رہا، سوال جلتا رہا
کھینچ لائی فردوس تک گواہی اُسکی
ہاتھوں میں میرا نامئہ اعمال جلتا رہا
پھر کسی پناہ میں آ چکا تھا نعیم
وہ رابطہ کر کے بحال جلتا رہا