گناہ کی جستجو، ثواب کی طلب

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

[11:01, 24/06/2025] NAEEM BAJWA: زندگی کی اس پیچیدہ راہ گزر پر جہاں ہر راستہ کسی نہ کسی سمت کو جاتا ہے، کچھ لوگ ایسی راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں جن کی منزلیں ان کے شعور میں تو ثواب کے میناروں کی مانند دکھائی دیتی ہیں، مگر درحقیقت وہ پگڈنڈیاں کسی ایسے خلا میں جا اترتی ہیں جہاں روشنی کم اور سایے زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ کیسی عجیب تگ و دو ہے کہ انسان بعض اوقات روشنی کی خواہش میں دھوکے کے جگنو پکڑنے لگتا ہے؟ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی نیت نیکی ہے، مگر راہ میں بچھے خار اس کے قدموں میں الجھنے لگتے ہیں۔ وہ گمان کرتا ہے کہ وہ گناہ کے کانٹوں کو عبور کر کے ثواب کے پھولوں تک پہنچ جائے گا، مگر اکثر ایسا ہوتا نہیں۔ اس کے ہاتھ میں جو باقی رہتا ہے، وہ زخموں کی ایک کہانی ہوتی ہے، جسے وہ اپنے ہی لہو سے لکھتا ہے۔

عارفین نے کہا تھا کہ حقیقت کو تلاش کرو، مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ نیت اور عمل کے بیچ نادانی کا ایک باریک پردہ حائل ہوتا ہے، جو بعض اوقات دانائی کی چادر سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ کیا نیت کی پاکیزگی عمل کی کثافت کو دھو سکتی ہے؟ یا پھر عمل کا کھوٹا سکہ نیت کے خزانوں کو بھی برباد کر دیتا ہے؟

انسان جس لمحے خود کو گناہ کا جواز دینے لگے، اسی لمحے اسے یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وہ راستہ جو وہ اختیار کر رہا ہے، حقیقتاً اسے روشنی کی طرف لے جائے گا؟ یا پھر وہ روشنی کا محض ایک سراب ہے، جو ایک اور گہرے اندھیرے کی دہلیز پر کھڑا اس کے قدموں کا منتظر ہے؟

ثواب کی جستجو میں اگر گناہ کی تاریکیوں میں قدم رکھا جائے تو شاید روشنی تک پہنچنے کا مفہوم ہی گم ہو جائے۔ اس سے بہتر نہیں کہ روشنی کو اندھیروں سے آزاد راستوں پر تلاش کیا جائے؟ کیونکہ وہ روشنی جو کسی سایے کی محتاج ہو، وہ روشنی نہیں، محض فریب ہوتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top