(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
مٹی کی تقدیر کیا ہے؟ کبھی وہ گلاب کو جنم دیتی ہے، کبھی کانٹوں کو۔ مگر مٹی بےبس ہے، اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ جو کچھ اس میں بویا جائے، وہی اگاتی ہے۔ لیکن انسان؟ اسے اختیار دیا گیا، شعور بخشا گیا، انتخاب کا حق ملا۔ پھر کیوں وہ اپنی زمین کو زرخیز نہیں کرتا؟ کیوں اس کے اندر خوشبو نہیں مہکتی؟
اگر ہم مٹی سے پیدا ہوئے، تو ہمارے وجود سے مہک اٹھنی چاہیے تھی۔ ہم میں محبت کے گلاب کھلنے چاہیے تھے، صبر کی چنبیلی مہکنی چاہیے تھی، ایثار کے کنول لہرانے چاہیے تھے۔ مگر ہم نے اپنی مٹی کو بنجر کر دیا۔ حسد، نفرت، اور خودغرضی کے زہر نے ہمیں ایسا کانٹا بنا دیا، جو نہ خود کو راحت دیتا ہے، نہ کسی اور کو۔
یہ دنیا ایک باغ ہے، اور ہر انسان ایک بیج۔ کچھ لوگ محبت کے درخت بنتے ہیں، جن کی چھاؤں میں تھکے ماندے لوگ سکون پاتے ہیں، جن کی شاخوں پر پرندے نغمے گاتے ہیں، جن کے پتوں میں زندگی کی سرگوشیاں گونجتی ہیں۔ اور کچھ لوگ خشک ٹہنیوں کی مانند ہوتے ہیں، جو نہ سایہ دیتے ہیں، نہ ثمر، بلکہ صرف آگ کے لیے ایندھن بننے کے قابل رہ جاتے ہیں۔
محبت مٹی کو خوشبو دیتی ہے، اور نفرت اسے راکھ بنا دیتی ہے۔ مگر خوشبو باہر نہیں، ہمارے اندر ہے۔ زمین خود سے مہک نہیں سکتی، جب تک کوئی بیج اس میں جڑیں نہ پکڑے۔ اسی طرح، انسان بھی روشنی کے بغیر ایک بنجر خاک ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں مہکا دے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر دل میں روشنی نہ ہو، تو سورج بھی اجالا نہیں دے سکتا۔ باغ وہی بنتا ہے جو روشنی کو قبول کرے، ورنہ ہر زمین ایک ویران صحرا ہے۔
بارش زمین پر برسے تو وہ زرخیز ہو جاتی ہے، لیکن اگر زمین خود ہی سخت ہو جائے، پانی کو اپنے اندر جذب نہ کرے، تو وہ پتھر بن جاتی ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ محبت، علم، اور ایثار کی بارش ہر دل پر برستی ہے، مگر کچھ دل اسے جذب کر کے ایک شاداب باغ بن جاتے ہیں، اور کچھ دل اسے ٹھکرا کر بنجر میدان میں بدل جاتے ہیں۔
ہمیں فیصلہ کرنا ہے—ہم ایک مہکتا ہوا پھول بنیں گے، یا ایک کانٹا جو کسی کے دامن میں چبھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا؟ ہم وہ درخت ہوں گے جو پرندوں کو آشیانہ دے، یا وہ خشک ٹہنی جو اپنی ہی جڑوں سے کٹ کر بکھر جائے؟
یہ دنیا ہمارے قدموں میں ایک کھلی زمین کی مانند ہے۔ جو بوئیں گے، وہی کاٹیں گے۔ اگر خوشبو چاہتے ہو تو اپنی زمین میں محبت کے بیج بو دو۔ اگر روشنی چاہتے ہو تو دل کے دروازے کھول دو۔ ورنہ یاد رکھو، جو زمین زرخیز نہ رہے، وہ ویران ہو جاتی ہے۔ اور جو دل محبت نہ دے، وہ پتھر بن جاتا ہے۔
تو پھر، کیا ہم نے اپنی مٹی کو زرخیز بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ یا اب بھی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں؟