ہم دل کی آنکھوں سے نظر رکھتے ہیں
مصروف ہو کر بھی ہم خبر رکھتے ہیں
تم خواب میں آ کر تو دیکھو اک بار
اس سے آگے بھی رہ گزر رکھتے ہیں
چاہیں نہ بھی تو جینا پڑتا ہے یہاں
کب چارہ کوئی لکھے پر رکھتے ہیں
ماضی کی راکھ سے بھی چنگاری اٹھی
کچھ جذبے مر کے بھی شرر رکھتے ہیں
ہر جبر کو دفنا دیتے ہیں جس میں
سینے میں نعیم گہری قبر رکھتے ہیں