ہم احساس بیچنے سرِ بازار آ گئے
سمجھتے ہی رہ گئے کہ خریدار آ گئے
جب اس گھر میں بن گئے سبھی کمرے جدا جدا
پھر اندر سے سارے گلی میں کردار آ گئے
مرے واسطے دعا کو وہ اک ہاتھ کیا اٹھا
مقابل پہ جتنے بھی تھے سبھی وار آ گئے
ہمیں سادگی کے نور کا چہرے پہ زعم تھا
سو ہم چلتے چلتے جوہری بازار آ گئے
صدا دے رہا تھا دار سے منصور آج پھر
سو ہم تو یہ چھوڑ چھاڑ کے گھر بار آ گئے
فرشتوں کی آنکھ سے بھی جو اوجھل تھے کل تلک
وہی ہیں جو اب خبر ہو کے اخبار آ گئے
پروئے گئے نعیم محبت سے جس گھڑی
ہو کے ہیرے موتیوں کا یہ ہم ہار آ گئے