ہم احساس بیچنے سرِ بازار آ گئے

غزل

ہم احساس بیچنے سرِ بازار آ گئے
سمجھتے ہی رہ گئے کہ خریدار آ گئے

جب اس گھر میں بن گئے سبھی کمرے جدا جدا
پھر اندر سے سارے گلی میں کردار آ گئے

مرے واسطے دعا کو وہ اک ہاتھ کیا اٹھا
مقابل پہ جتنے بھی تھے سبھی وار آ گئے

ہمیں سادگی کے نور کا چہرے پہ زعم تھا
سو ہم چلتے چلتے جوہری بازار آ گئے

صدا دے رہا تھا دار سے منصور آج پھر
سو ہم تو یہ چھوڑ چھاڑ کے گھر بار آ گئے

فرشتوں کی آنکھ سے بھی جو اوجھل تھے کل تلک
وہی ہیں جو اب خبر ہو کے اخبار آ گئے

پروئے گئے نعیم محبت سے جس گھڑی
ہو کے ہیرے موتیوں کا یہ ہم ہار آ گئے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top