حسد اور عدم تحفظ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

انسان ہمیشہ سے اپنی ذات کے حصار میں قید ہے۔ اس کی فطرت میں بقا کی جبلت ہے، مگر اس بقا کے ساتھ ایک ایسا سایہ بھی چلتا ہے جو ہر دم اس کے اندر سرگوشیاں کرتا ہے— یہ سایہ حسد کا ہے، جو عدم تحفظ کے اندھیرے سے جنم لیتا ہے۔
عدم تحفظ وہ خلا ہے جو انسان کی ذات میں چھپا ہوتا ہے، اور جب وہ دوسروں کو اپنے سے بہتر، خوشحال یا آگے بڑھتا دیکھتا ہے، تو یہ خلا مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے اندر کی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے بجائے، دوسروں کی روشنی کو کم کرنے کی خواہش پال لیتا ہے۔ حسد دراصل خود سے فرار کا نام ہے— اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے بجائے، دوسرے کی کامیابی کو نشانہ بنانے کا ایک نفسیاتی جواز۔
لیکن انسان یہ نہیں جان پاتا کہ حسد کی آنچ درحقیقت اسی کے اندر جلتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے چراغ کو بجھانے کی کوشش میں خود دھوئیں میں ڈوب جاتا ہے۔ حسد ایک ایسی آگ ہے جو باہر نہیں، اندر جلتی ہے، اور جتنا اسے بھڑکایا جائے، اتنا ہی وجود راکھ میں بدلنے لگتا ہے۔
عدم تحفظ کا احساس درحقیقت اندرونی نامکملی کی پہچان ہے، مگر کمزور انسان اسے قبول کرنے کے بجائے دوسروں کی کامیابی کو حادثہ، قسمت یا دھوکہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کر پاتا کہ جو روشنی اسے چبھ رہی ہے، وہ کسی اور کا نہیں، اس کے اپنے وجود کا اندھیرا ہے۔
سچ یہ ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن دوسرا شخص نہیں، بلکہ اس کا اپنا خوف اور عدم تحفظ ہے۔ جو خود کو مکمل سمجھنے لگے، وہ حسد سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور جو اپنی کمزوریوں کو تسلیم کر کے انہیں طاقت میں بدل لے، وہ کسی دوسرے کے چراغ کی روشنی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ حسد ختم نہیں کیا جا سکتا، مگر اسے تسلیم کر کے اس کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا ہے۔ یہی آزادی کی پہلی شرط ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top