ہوا کے مخالف جلتی رہی
موم کی اک شمع پگھلتی رہی
کوئی پھونک اسکو بقا بخش دے
ننھی سی خواہش مچلتی رہی
قُربت کو اُسکی ترستا رہا
زندگی رنگ کتنے بدلتی رہی
خیالوں کو دے کر جنم ناگنی
بچوں کو اپنے نگلتی رہی
غم کی منکوحہ بننا تھا اُسے
خوشی کس خوشی میں سنورتی رہی
خستہ سانسوں کی ڈوری سے سیتا رہا
زندگی تھی کہ نعیم ادھڑتی رہی