حیات کا میزان

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کائنات کے ذرات میں ایک مسلسل رقص جاری ہے—کہیں جماؤ ہے تو کہیں بہاؤ، کہیں ٹھہراؤ ہے تو کہیں روانی۔ یہ تضاد نہیں بلکہ تکمیل ہے، ایک ایسا توازن جس پر حیات کا سارا بوجھ ٹکا ہوا ہے۔ یہی اصول انسانی وجود پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں جذبات، خیالات اور اعمال کی ایک نادیدہ میزان ہر لمحہ سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم سب ایک داخلی کیمیا کے مسافر ہیں، جہاں کبھی احساسات یخ بستہ ہو جاتے ہیں، تو کبھی جذبات پگھل کر سیلِ رواں بن جاتے ہیں۔ یہ تضاد ہمارے وجود کا حصہ ہے، مگر اس کا بہترین اظہار اسی میں ہے کہ ہم انجماد اور پگھلاؤ کے بیچ ایک ایسا توازن قائم رکھیں، جو ہمیں نہ تو جذباتی بےحسی میں گم ہونے دے اور نہ ہی شدت کے دریا میں غرق ہونے پر مجبور کرے۔ کثافت وہ مرحلہ ہے جب احساسات بوجھل ہو کر زمین کی طرف جھکنے لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسی گرفت ہے جو ذہن کو جامد اور وجود کو بوجھل کر دیتی ہے۔ لطافت، اس کے برعکس، روشنی کی طرح اوپر اٹھنے کی خواہش رکھتی ہے، جہاں شعور آزاد ہو، تخیل بلند پروازی کرے اور احساسات زندگی کے لطیف ترین لمس کو محسوس کریں۔
یہ دونوں اوصاف اگر بےقابو ہو جائیں تو بربادی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ حد سے زیادہ لطافت بےعملی اور خیال پرستی میں بدل سکتی ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کثافت وجود کو زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔ زندگی ان دونوں کے درمیان جھولتی ایک نازک طناب ہے، جس پر چلنے کے لیے مسلسل توازن درکار ہوتا ہے۔ جب کثافت اپنی حدوں کو پار کر جاتی ہے تو یہ احساسات کو جکڑ کر دل و دماغ میں ایسی گرہ لگا دیتی ہے کہ سانسیں بھی بوجھل محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آگ کا امتحان درپیش ہوتا ہے۔ انسان کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں: یا تو وہ اس آگ کے سامنے جھک جائے، یا پھر اسے اپنے حق میں موڑ کر جینے کا ہنر سیکھ لے۔

جلانے کے لیے جلنا لازم ہے—مگر یہ جلنا بربادی کا استعارہ نہیں، بلکہ تجدیدِ حیات کا عمل ہے۔ اگر آگ تمہیں جلانے کے درپے ہو، تو تمہیں اس سے زیادہ شدید بننا ہوگا۔ تمہیں اپنے انجماد کو اتنا بڑھانا ہوگا کہ وہ اس تپش پر غالب آجائے اور اس کے دہکتے انگاروں کو بھی منجمد کر دے۔ یہ وہی نقطہ ہے جہاں انسان اپنی آگ کو اپنے ہاتھ میں لے آتا ہے اور اسے محض بھسم کرنے والی لَو کی بجائے ایک تخلیقی توانائی میں ڈھال لیتا ہے۔

زندگی ایک ندی کی مانند ہے، جسے بہاؤ اور ٹھہراؤ کے درمیان ایک مسلسل مکالمہ برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ جو شخص صرف جذبات کے بہاؤ میں بہہ جائے، وہ ایک بےکنار موج بن کر ختم ہو جاتا ہے۔ اور جو مکمل طور پر سختی میں جکڑ جائے، وہ بے جان پتھر کی مانند ہو جاتا ہے۔ توازن کا مطلب ہے کہ ہم جذبات کی شدت میں بہہ جانے کے بجائے اسے سنوارنے، نکھارنے اور ایک تخلیقی طاقت میں بدلنے کا ہنر سیکھیں۔ ہمیں اپنے اندر انجماد بھی رکھنا ہے اور پگھلاؤ بھی، مگر ان دونوں کو ایسا قابو میں رکھنا ہے کہ زندگی آگے بڑھ سکے، تخلیق ہو، بہتری آئے، اور ہم اپنے وجود کے سب سے لطیف، سب سے حسین امکانات تک رسائی حاصل کر سکیں۔

یہی وہ زندگی ہے جو جینے کے قابل ہے—جہاں آگ جلاتی نہیں، روشنی دیتی ہے، اور جہاں توازن محض ایک نظریہ نہیں، بلکہ زندگی کی سانسوں میں رچی بسی حقیقت ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top