ہوں صحیفہ مگر گرد سے اٹا ہوا
ورق ورق بھی جس کا پھٹا ہوا
جسے ڈھونڈنے میں عمر گنوا دی
وہ ملا بھی تو بٹا ہوا
میرے ساتھ لوٹتا بھی کس طرح
ایک پر تھا اُس کا کٹا ہوا
لاگو نہ تھا اُس پہ کشش کا اصول
اپنے مدار سے تھا ہٹا ہوا
وہی لفظ لکھ نہ پائے عمر بھر
حرف حرف تھا جس کا رٹا ہوا
کہہ رہا تھا بےبسی کی داستاں
خاکِ ندامت سے نعیم اٹا ہوا