(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کبھی کبھی ایک لمحہ، وقت کے مسلسل بہاؤ سے انحراف کر جاتا ہے—ایسا لمحہ جو نہ ماضی میں ہوتا ہے، نہ مستقبل میں، بلکہ صرف وجدان کی بے سمت گہرائی میں، ایک بےنام مقام پر ٹھہر جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو عقل کے راستوں سے انکار کرتا ہے، اور شعور کی تمام منطقوں کو مضمحل کر دیتا ہے۔
جب “تو” میرے قریب تھا—نہیں، جب “تو” ہی سب کچھ تھا—تو وہ لمحہ الفاظ کے دائرے سے نکل کر جذبوں کے اس جہان میں جا بسا جہاں ہوش کا داخلہ ممنوع ہے۔ اُس لمحے میں نہ میں تھا، نہ زمانہ؛ فقط ایک “تو” تھا، اور اُس “تو” کی موجودگی اتنی شدید، اتنی مکمل تھی کہ میری ہستی اُس میں تحلیل ہو گئی۔
خِرَد، جو ہمیشہ سوال اٹھاتی ہے، اس لمحے سوال کرنا بھول گئی۔ شعور، جو ہمیشہ دلیل مانگتا ہے، اس لمحے خاموش ہو گیا۔ اُس ایک پل نے میرے اندر کے تمام فلسفوں کو گونگا کر دیا۔ میں چاہتا تو تھا کہ اسے لفظوں میں قید کر دوں، لیکن الفاظ تو ہوش کی زمیں پر اگتے ہیں، اور وہ پل تو جنون کی کہکشاؤں میں پروان چڑھا تھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ اظہار ہی محبت کی تکمیل ہے، مگر میرے پاس اظہار کا کوئی در وا نہ تھا۔ میں جس جذبے کا اسیر تھا، وہ اظہار سے بہت آگے کا سفر تھا۔ وہ ایک عارفانہ کیفیت تھی، جہاں محبوب فقط محسوس ہوتا ہے—بغیر کسی زبان، بغیر کسی لمس کے۔
شاید یہی انحرافِ خِرَد ہے—جہاں انسان، انسان نہیں رہتا؛ وہ یا تو خود “تو” بن جاتا ہے، یا پھر اُس “تو” کی پرچھائیں میں فنا ہو جاتا ہے۔ اور فنا—فقط فنا—ہی وہ راستہ ہے جو محبت کو بقا میں بدل دیتا ہے۔
اس پل کو لکھنے کی خواہش ایک خوش فہمی ہے، کیونکہ جس پل میں صرف “تو” ہو، اُس پل میں کوئی “میں” باقی نہیں رہتا جو لکھ سکے۔ اور جب لکھنے والا باقی نہ رہے تو تحریر صرف خامشی بن جاتی ہے۔ اور خامشی—اگر سمجھ سکو—سب سے بلیغ محبت نامہ ہے۔