اس درجہ معاملہ طے نہ ہوا
نظر سے دل تک فاصلہ طے نہ ہوا
پگڑی نے سر کے ساتھ جانا تھا
بس یہی ایک مرحلہ طے نہ ہوا
کلہاڑی کی زَد میں ہر اک پیڑ ہے
کس شاخ پہ ہو گھونسلا طے نہ ہوا
الوداع کہہ کر اُسے پتھر ہی ہو گیا
کس درجہ چاہئے تھا حوصلہ طے نہ ہوا
فاصلے کیا سمیٹے گا وہ نعیم
اُس سے تو تیرے پیر کا آبلہ طے نہ ہوا