عشق — عین، شین ،قاف ، اور قرب کا آفاقی سفر

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

عشق — صرف ایک لفظ نہیں،
بلکہ وہ عرفانی زلزلہ ہے جو
انسان کو اپنے خول سے نکال کر
ذاتِ حق کی دہلیز تک لا کھڑا کرتا ہے۔
یہ کوئی سطحی واردات نہیں،
بلکہ ایک باطنی انقلاب ہے —
جہاں “ع” سے آغاز ہوتا ہے، “ش” سے پردہ اٹھتا ہے، اور “ق” پر فنا مکمل ہوتی ہے۔

ع: عین — عینِ حق، عینِ ذات، عینِ نور
عشق کا پہلا قدم “عین” ہے —
یعنی وہ مرحلہ جہاں سالک کو یقین ہو جاتا ہے
کہ جو کچھ ہے،
وہ صرف ایک ہی ہے:
عینِ ذاتِ الٰہی۔
جس کی قرآن نے یوں خبر دی :
اللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ… نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ
(النور: 35)
یعنی وہ نور —
جو نہ صرف سب پر چھایا ہوا ہے،
بلکہ اپنے اندر بھی نور کی پرتوں میں لپٹا ہوا ہے۔
یہاں سالک کی آنکھ صرف ظاہری جہان سے نہیں، بلکہ باطنی وجود سے بھی ہٹ جاتی ہے۔
وہ محسوس کرتا ہے کہ وجود کا مرکز، حقیقت کا عین — صرف ایک نور ہے، اور وہی خدا ہے۔
ش: شق — پردہ چاک ہونا، بصیرت کی بیداری
جب سالک عینِ نور تک پہنچتا ہے،
تو اگلا مرحلہ ہے:
“شق” — چاک کرنا، پردہ ہٹانا۔
یہاں نور کی چادر شق ہوتی ہے۔
مگر یہ چاک جسمانی آنکھ سے نہیں، بلکہ دل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے
جب ظاہر کی حدیں پگھلتی ہیں
اور باطن اپنی اصل میں جھلک دکھانے لگتا ہے۔
نور میں لپٹی ہوئی حقیقت
جب نور ہی کے پردے سے چھن کر ظاہر ہوتی ہے،
تو ہر شے — حتیٰ کہ اپنا وجود — بھی نور دکھائی دینے لگتا ہے۔
یہاں وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں “اناالحق” کی صدا بلند ہوتی ہے — یعنی نہ “میں” رہا، نہ “تو”، سب کچھ وہی ایک ہے۔
لیکن یہی مقام فتنہ بھی ہے —
کیونکہ اگر کوئی رہبرِ برحق نہ ہو،
تو سالک نور کی مستی میں اپنی حد کھو بیٹھتا ہے۔
ابن عربی نے اسی مقام کو “وحدۃ الوجود” کا نام دیا — کہ ہر شے اسی ایک حقیقت کا پرتو ہے۔
مگر ظاہری اذہان نے اسے حلول اور خود خدائی کا دعویٰ سمجھا،
حالانکہ وہ فنا کی انتہا کی بات کر رہے تھے، نہ کہ وجود کے دعوے کی۔
ق: قرب — قاب قوسین، قُربانی، اور فنا
اور عشق کی معراج ہے: “ق” —
جو ہے قرب،
قاب قوسین کا وہ مقام
جہاں عاشق اور معشوق کے بیچ
فاصلہ نہیں رہتا۔
“ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ”
(النجم: 8-9)
یہ وہ مقام ہے جہاں
نہ سوال رہتا ہے، نہ جواب —
نہ دعا رہتی ہے، نہ صدا —
بس وصال ہوتا ہے۔
یہ قرب فنا سے پیدا ہوتا ہے۔
یہاں عاشق اپنی ہستی کو قربان کر دیتا ہے،
اپنی “میں” کو جلا کر ذاتِ حق میں محو ہو جاتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے
جب “عشق” مکمل ہوتا ہے:
“ع” — حقیقت کا عرفان
“ش” — حجاب کا چاک ہونا
“ق” — وصال اور فنا
عشق — نور کا وہ سفر ہے جس میں ذات خود کو مٹا کر اصل کو پا لیتی ہے۔
عشق صرف احساس نہیں —
یہ وجود کا تجزیہ ہے، اور پھر اس وجود کا نفی میں تحلیل ہو جانا۔
عشق وہ مقام ہے جہاں لفظ ختم ہو جاتے ہیں ،اور خاموشی سچ بولنے لگتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top