جب کوئی اپنا راز چھپانے لگتا ہے
پہلے پہلے وہ آنکھ چرانے لگتا ہے
جب اندر چپ گہری ہونے لگ جاتی ہے
بندہ باہر آواز لگانے لگتا ہے
گھر دیر سے آنے کی عادت ہو جائے تو
دروازہ گھر کا آنکھ دکھانے لگتا ہے
کہتے ہیں لوگ خوشی کے آنسو رو کر جن کو
وہ اندر کا دکھ درد ہنسانے لگتا ہے
رہا ہونے کا تو نعیم نے جب بھی سوچا ہے
سارا زنداں طوفان اٹھانے لگتا ہے
