جبر کی جب انتہا ٹوٹی
زنجیرِ قفس بےصدا ٹوٹی
اُس نے کہا تھا آزمانا مت
بھرم الگ ٹوٹا، قسم جدا ٹوٹی
بھوک کھینچ لائی جب مقتل تک
اُسی لمحے رسمِ خوں بہا ٹوٹی
ڈیرے ڈال لے گی گردش میرے گھر میں
جس روز میری دیوارِ دعا ٹوٹی
موت سے بھاری تھا ہجر میں جینا
ڈوری سانس کی نعیم بجا ٹوٹی