جبر کی جب انتہا ٹوٹی

غزل

جبر کی جب انتہا ٹوٹی
زنجیرِ قفس بےصدا ٹوٹی

اُس نے کہا تھا آزمانا مت
بھرم الگ ٹوٹا، قسم جدا ٹوٹی

بھوک کھینچ لائی جب مقتل تک
اُسی لمحے رسمِ خوں بہا ٹوٹی

ڈیرے ڈال لے گی گردش میرے گھر میں
جس روز میری دیوارِ دعا ٹوٹی

موت سے بھاری تھا ہجر میں جینا
ڈوری سانس کی نعیم بجا ٹوٹی

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top