جل رہے چراغوں کی ضیا نہیں ہے
اب بھی کہہ رہے ہو وہ خفا نہیں ہے
پیش ہے تمہارے اپنی ہی سیاہی
لب پہ تو ہمارے بد دعا نہیں ہے
ایسا کیوں ہے یہ سوچو کبھی ذرا تم
تیز تر ہوا ہے پر ہوا نہیں ہے
یوں حیا کے پردے تم نے ہیں گرائے
بے حیائی پر اپنی حیا نہیں ہے
چارہ گر گریزاں ہے نعیم اب کے
ورنہ درد اپنا لا دوا نہیں ہے
