جھکنے کا فن

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

بلندی کا شوق سب کو ہے، مگر بہت کم جانتے ہیں کہ بلندی کا راستہ جھکنے سے ہو کر گزرتا ہے۔ زمین سے جُڑی شاخ ہی پھل دیتی ہے، اور جو درخت اپنی قامت پر نازاں ہو، وہ صرف سایہ دیتا ہے—وہ بھی اس وقت تک جب تک ہوا کی ایک لہر اسے زمین بوس نہ کر دے۔

عاجزی ایک ایسا تاج ہے جو سَر پر نہیں، دل پر سجتا ہے۔ جو جھکنا جانتا ہے، وہ دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ ضد، انا، خود پساری—یہ سب ظاہری قد کاٹھ کی عمارتیں ہیں، جن کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ سفیدہ کی مانند، جو جتنا سیدھا اور اکڑا ہوا ہو، اتنا ہی بے ثمر اور وقت کا مارا ہوتا ہے۔ وہ نہ چھاؤں دیتا ہے، نہ پھل—بس زمین میں کھڑا، اپنی ذات کی قبر کھودتا رہتا ہے۔

دوسری طرف وہ بوڑھا پیپل ہے، جو جھکا ہوا ہے، خستہ سہی، مگر اس کی ہر شاخ پر پرندوں کے گھونسلے ہیں، ہر پتّے میں زندگی کی سرگوشی، اور ہر جڑ میں صدیوں کی حکمت۔ وہ جانتا ہے کہ جھک جانا کمزوری نہیں، بلکہ وہ طاقت ہے جو وقت کے طوفانوں سے بچا لیتی ہے۔

زندگی ایک ایسا سفر ہے جہاں جیتنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے، اور بچنے کے لیے خود کو مٹا دینا۔ ضد کی چٹانیں رستے بند کرتی ہیں، مگر عاجزی کے قطرے چٹانوں میں بھی راستے بنا لیتے ہیں۔ سو جسے بقا کی تمنا ہو، اُسے جھکنا سیکھنا ہوگا—نہ صرف خدا کے حضور، بلکہ خلقِ خدا کے آگے بھی۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top