(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
جب رات اپنے پر پھیلا کر کائنات کو اپنے دامن میں لپیٹ لیتی ہے، تو کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو خاموشی کی زبان میں کہی جاتی ہیں، دل کی دھڑکنوں میں بَسی ہوتی ہیں، اور آنکھوں کی نمی میں چمکتی ہیں۔ مگر افسوس! بیشتر کہانیاں خاموش رہ جاتی ہیں، دب جاتی ہیں، دبیز پردوں کے پیچھے چُھپ جاتی ہیں، اور پھر وقت کی گرد میں گم ہو جاتی ہیں۔
کیا آپ نے کبھی درختوں کی سرگوشیاں سنی ہیں؟ ہر درخت کے چھال پر ایک کہانی لکھی ہے اس کی جڑوں میں چُھپے آنسو، اس کی شاخوں میں جھومتی خوشیاں، اور اس کے پتوں میں لرزتے خواب۔ یہ کہانیاں سنانے کے قابل ہیں، مگر ہم نہیں سنتے۔ ہم صرف لکڑی دیکھتے ہیں، کہانی نہیں۔
انسان بھی درخت کی طرح ہے، مگر ہم اپنی کہانیوں کو قید کر لیتے ہیں۔ وہ کہانیاں جو ہم نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں چُھپا رکھی ہیں، کبھی کبھار رات کی خاموشی میں چیخ اٹھتی ہیں، مگر ہم انہیں سننے سے ڈرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے سچ کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔
سچائی کا سامنا کرنا ایک آئینے میں اپنی حقیقت دیکھنے کے مترادف ہے، جہاں ہر جُھری، ہر زخم، اور ہر خطا بے نقاب ہو جاتی ہے۔ مگر یہی تو کہانی کا حسن ہے! یہی تو وہ داستان ہے جو دوسروں کو اندھیروں میں روشنی کا راستہ دکھا سکتی ہے۔
سوچیں، اگر سمندر اپنے طوفانوں کو چُھپا لیتا تو ساحلوں پر گیت کون گاتا؟ اگر آسمان اپنی بجلیوں کو چُھپا لیتا تو بادلوں کے درمیان خواب کیسے پلتے؟ اور اگر چاندنی اپنی ٹوٹ پھوٹ کو چُھپا لیتی تو رات کے ماتھے پر حسن کا جھومر کون سجاتا؟ قدرت کی ہر شے اپنی کہانی سناتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی درد بھری کیوں نہ ہو۔
“حقیقی کہانی وہی ہے جو تمہارے وجود کو جھنجھوڑ دے، تمہارے شعور پر دستک دے، اور تمہارے ہونٹوں پر سچائی کی شدت سے لرزش طاری کر دے۔ اگر تم پھر بھی اسے بیان کرنے کا حوصلہ رکھو، تو وہی کہانی امر ہو جاتی ہے۔”
یہ وہ کہانیاں ہیں جو چُھپانے کے نہیں، سنانے کے قابل ہیں۔ وہ داستانیں جو ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم انسان ہیں، خطا کار ہیں، مگر پھر بھی روشنی کے متلاشی ہیں۔
زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان کہانیوں کو چُھپانے میں ماہر ہو گئے ہیں جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔ مگر یاد رکھیں، چُھپانے والی کہانیاں کبھی تاریخ نہیں بنتیں۔ تاریخ میں وہی کہانیاں زندہ رہتی ہیں جو سچائی کے چہرے سے نقاب اُتار دیتی ہیں، جو ظلمت میں چراغ کی طرح جلتی ہیں، اور جو انسانیت کی گہرائی کو بے نقاب کرتی ہیں۔
آئیے، ایسی کہانیاں تخلیق کریں جو سنانے کے قابل ہوں۔ ایسی کہانیاں جنہیں سن کر دل میں حرارت اور آنکھوں میں چمک آ جائے۔ جنہیں پڑھ کر قاری کا دل دھڑکنے لگے، اور روح میں ایک ارتعاش پیدا ہو جائے۔
کیونکہ زندہ رہنے کا حق وہی رکھتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی سنائے جاتے ہیں۔ اور یہ صرف سنانے والی کہانیاں ہیں جو ہمیں وہ دائمی زندگی عطا کرتی ہیں جس کی ہم تمنا کرتے ہیں۔ ایسی کہانیاں جو نہ صرف ہماری شناخت بن جائیں بلکہ ہماری وراثت بھی۔
سو، اپنی کہانی کو زندہ کریں۔ اسے چُھپانے کے بجائے سنانے کے قابل بنائیں۔ تاکہ جب وقت کی کتاب لکھی جائے، تو ہمارا ذکر ان صفحات میں ہو جو ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں۔