کیسا یہ نشہ ہے، کیسی یہ خماری ہے
سرداری نہیں غافل یہ سرِ داری ہے
کِرمِ خاکی پہ ہوا ہے کَرمِ ساقی
جھکا دے خود کو یہی شکر گزاری ہے
فانوس یہ روشن ہیں فقیروں کے لہو سے
تُم یہ سمجھے ہو روشنی تمہاری ہے
تماشبینوں کا تیرے گرد جھمگھٹا کیوں ہے
حواری جنہیں سمجھا ہے، ٹولہ احراری ہے
ہم منصوروں سے صدائے انالحق سن
تو جو سُن رہا ہے، راگ درباری ہے
آئنہ صفت ہیں قصیدے نہیں پڑھتے
واقفِ زیست ہیں، بے اختیاری ہے
ہمارے صبر کی وسعت کا اندازہ نہیں تم کو
عرفات جو تیرا ہے تو پیاس ہماری ہے
راہِ مولا کے فقیروں سے ذرا بچ کے
یہ کاسہ یہ خیرات اُسے بہت پیاری ہے
نوازش جو ہوئی ہے تو ظرف بڑھا اپنا
تحریر اخباری ہے، زبان بازاری ہے
الٹی سیدھی ضربوں سے کام نہیں چلنے کا
پڑتال بھی جاری ہے، نظام بھی اعشاری ہے
ہاتھ باگ میں، نہ پاؤں ہیں رکاب میں
سوار تو کیسا ہے، تیری کیسی سواری ہے