کیسے کیسے غم دیکھے ہیں دنیا داری میں
اپنا غم بھول گئے اوروں کی غمخواری میں
یونہی حیرت میں نہیں ڈوبی میری غزلیں
اس کو دیکھا ہے لہجے کی تہ داری میں
یوں گھٹ گھٹ کر مرنے سے کیا حاصل ہو گا
چلو پھول کھلائیں آنگن کی پھلواری میں
ساری تصویریں سجا لی ہیں ان آنکھوں میں
دیمک لگ جاتی ہے دل کی بند الماری میں
چھائی ہے بے کیفی پھر آج نعیم بہت
ایسے میں غزل ہی سناؤ کوئی درباری میں
