کھیلو گے بازی اگر استادوں سے
شاہ تو پٹیں گے پھر پیادوں سے
کس نے کہا تھا دامن آلودہ کرو اپنا
اب کُھرچ رہے ہو دھبے لبادوں سے
پناہ مانگتی پھرتی ہیں راہیں ان سے
مُکر جاتے ہیں جو ارادوں سے
صحرا سی آنکھوں میں اتر جائیں دونوں
ساون کہہ رہا تھا بھادوں سے
ایسے موجد ہاتھ چومیں کہ کاٹیں نعیم
عشق شق میں بدلا نئی ایجادوں سے