کہیں ایسا نہ ہو کہ میں جیے بغیر مر جاؤں

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

زندگی کا سب سے بڑا خوف موت نہیں، بلکہ وہ زندگی ہے جو بنا کسی شدت، بنا کسی احساس کے گزر جائے۔ وہ زندگی جس میں نہ کوئی لمحہ دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کرے، نہ کوئی خوشی قہقہہ بن کر گونجے، نہ کوئی غم آنکھوں کو نم کرے۔

میں سوچتا ہوں، اگر ایک دن جاگوں اور یہ احساس ہو کہ میں نے کبھی دیوانہ وار محبت نہیں کی، کبھی کسی درد نے مجھے چیخنے پر مجبور نہیں کیا، کبھی کسی خوشی نے مجھے اتنا ہلکا نہ کر دیا کہ میں ہوا میں اڑنے لگا—تو کیا یہ زندگی، واقعی زندگی تھی؟

اگر میں نے ہر دن بس ایک معمول کی طرح گزار دیا، تو کیا میں زندہ تھا؟ اگر میں نے کبھی کسی خواب کے لیے اپنی نیندیں قربان نہ کیں، کسی سچائی کے لیے خود کو جلایا نہیں، اگر میرے دل میں کبھی ایسی تڑپ نہ جاگی جو مجھے خود سے ہی بغاوت پر مجبور کر دیتی—تو پھر میں اور ایک بے جان پتھر میں کیا فرق رہا؟

زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں۔ یہ اس لمحے کا نام ہے جب دل اتنے زور سے دھڑکتا ہے کہ پسلیوں میں درد ہونے لگے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہونٹوں پر ایسی ہنسی آ جائے کہ آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنی ہڈیوں میں تھکن محسوس کریں مگر روح سرشاری میں جھومے، جب ہم کسی کے لیے ٹوٹ کر بکھریں اور پھر خود کو دوبارہ جوڑنے کی ہمت کریں۔

لیکن اگر ایسا نہ ہو—اگر میں یونہی ہر دن ایک جیسے انداز میں گزار دوں، بنا کسی شدت کے، بنا کسی جذبات کے، تو کیا میں واقعی جی رہا ہوں؟ یا میں بس ایک زندہ لاش ہوں جو وقت کے ہاتھوں میں بہتی جا رہی ہے؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ایک دن حقیقت میں مر جاؤں، اور تب جا کر مجھے احساس ہو کہ میں تو پہلے ہی مر چکا تھا—اس دن سے جب میں نے جینا چھوڑ دیا تھا، جب میں نے زندگی کو صرف گزارنا شروع کر دیا تھا، جب میں نے اپنے دل کی آواز کو خاموش کر دیا تھا۔ اور اگر ایسا ہوا، تو موت میرے لیے ایک اختتام نہیں، بلکہ صرف اس حقیقت کا اعلان ہوگی کہ میں کبھی زندہ تھا ہی نہیں۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top