خود کا فاتح

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

سب سے بڑی جنگ وہ نہیں جو میدانوں میں لڑی جاتی ہے، بلکہ وہ ہے جو انسان کے دل و دماغ کے اندر، بے آواز، بے نشان اور چھپی ہوئی ہوتی ہے۔

یہ جنگ کسی بیرونی طاقت یا دشمن سے نہیں، بلکہ انسان کی اپنی کمزوریوں، شک و شبہات اور اندرونی خوف سے ہوتی ہے۔
یہ وہ جنگ ہے جہاں ہر لمحہ ایک معرکہ ہوتا ہے، جہاں دل کی آرزو اور دماغ کی حقیقتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوتی ہیں۔

جب دل خوابوں کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈ رہا ہوتا ہے، تو دماغ اُس کے سامنے ہزاروں سوالات اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔

اور یہی وہ لمحہ ہے، جب انسان اپنی تقدیر کا خود ذمہ دار بنتا ہے، کیونکہ یہی وہ دور ہوتا ہے جب وہ یا تو اپنی داخلی جنگ سے ہار کر کمزوریوں میں غرق ہو جاتا ہے، یا اپنے حوصلے سے جیت کر اپنی تقدیر کا فاتح بن جاتا ہے۔

انسان کا سب سے بڑا دشمن اُس کے اندر کا خوف، اُس کی تذبذب کی کیفیت، اور اس کے وہ اندیشے ہیں جو اُسے اپنی صلاحیتوں سے انکار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ بے آواز جنگ اتنی شدت اختیار کرتی ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو شکست دے کر اپنی اصل حقیقت کا پتا لگاتا ہے، اور پھر اپنی چھپی ہوئی قوتوں کو پہچان کر، انہیں اپنی تقدیر کا حصہ بنا لیتا ہے۔
زندگی کا کمال دراصل دنیا کے میدانوں میں لڑنے میں نہیں، بلکہ اپنے اندر کے میدانِ جنگ کو جیتنے میں ہے۔ کیونکہ دنیا کے سامنے جیتنے سے پہلے، انسان کو اپنے آپ سے جیتنا ضروری ہوتا ہے۔

جب انسان اپنی خامیوں، نقصانات اور کمزوریوں کو اپنے اندر کی خوبصورتی کے طور پر قبول کرتا ہے، تب وہ اپنی ذات کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔
تب اُسے یہ سمجھ آتا ہے کہ دراصل کامیابی کا مفہوم صرف کامیابیوں میں نہیں، بلکہ اپنی ناکامیوں کو قوت میں بدلنے میں ہے۔

خود پر قابو پانے کی جستجو، دراصل انسان کی سب سے بڑی معرکہ آرائی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو ہر انسان کے اندر اُس کے نفس، اس کی خواہشوں، اس کے خوف، اور اس کے شکوک و شبہات سے ہوتی ہے۔

جو انسان اپنے اندر کے بھٹکنے والے تذبذب کو سکون میں بدل لیتا ہے، وہ دراصل زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔

وہ جانتا ہے کہ سب سے بڑی فتح یہ نہیں کہ ہم دنیا سے کیا حاصل کرتے ہیں، بلکہ سب سے بڑی فتح یہ ہے کہ ہم اپنے اندر کے انتشار کو سکون میں بدل کر خود کو بہتر انسان بناتے ہیں۔

جو انسان اپنی اندرونی جنگ میں ہار جاتا ہے، وہ دراصل اپنی حقیقت سے منحرف ہو جاتا ہے۔
وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اصل کامیابی وہ لمحہ ہے، جب انسان اپنی اندر کی روشنی کو دریافت کر لیتا ہے، جو نہ صرف اس کے اندھیروں کو ہرا دیتی ہے بلکہ اُسے اپنے وجود کی مکمل حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔

اس روشنی میں انسان کی تمام کمزوریاں طاقت میں بدل جاتی ہیں، اور وہ ہر دکھ، ہر تکلیف، اور ہر چیلنج کو کامیابی کی جانب قدم بڑھانے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔
یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، لیکن اس کا ہر مرحلہ انسان کو ایک نیا سبق سکھاتا ہے۔
یہ جنگ انسان کو اپنی حقیقت کے قریب لے جاتی ہے، اور جب انسان اپنی اندر کی جنگ جیت لیتا ہے، تب وہ نہ صرف دنیا کا فاتح بنتا ہے، بلکہ اپنے اندر کی حقیقت کا بھی فاتح بن جاتا ہے۔
خود پر قابو پانا، اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنانا، اور اندر کی روشنی کو اجاگر کرنا یہی انسان کا سب سے عظیم معرکہ ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top