خدا کے نام کی اجڑی بستی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

یہ ایک ایسی سرزمین ہے، جو مقدس نام پر بسائی گئی تھی — خواب تھا کہ یہاں روشنی ہوگی، عدل کا سایہ ہوگا، اور ہر دروازے پر صداقت دستک دے گی۔ مگر وقت گزرتا گیا اور دعاؤں کی بستی آہستہ آہستہ نعروں کی نگری میں بدل گئی۔ یہاں اب الفاظ کا لباس پہنا کر سچائی کو رسوا کیا جاتا ہے، اور وہ جو حق کی گواہی دے، خود کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

یہاں عقیدت اب دلوں کا معاملہ نہیں رہی — اب یہ بازار میں تولی جاتی ہے، نرخ طے کیے جاتے ہیں، اور ہر فقہ، ہر مسلک، کسی نہ کسی ترازو میں لٹکا دکھائی دیتا ہے۔ منبر اب خاموش ہے، مگر ایوانِ اقتدار میں مذہب کے نام پر ہر روز نئی بولی لگتی ہے۔ عبادات کا نور کہیں دھندلا سا ہو چکا ہے، اور اب وہی دعا قبول سمجھی جاتی ہے جو سرکاری کیمروں کی آنکھ سے ریکارڈ ہو۔

سیاست اب ایک ایسا آئینہ ہے جس پر دھول جمی ہے — چہرے تو نظر آتے ہیں، مگر اصل صورتیں اوجھل ہو چکی ہیں۔ ہر وعدہ، ایک نئی زنجیر ہے، اور ہر تقریر، کسی پرانی امید کے جنازے پر کہی جاتی ہے۔ شہر میں بھوک کی بو ہے، دوا کی کمی ہے، اور تعلیم، دیوار پر آویزاں ایک خواب کی طرح صرف تصویر میں زندہ ہے۔ مگر رپورٹوں میں سب کچھ “بہتر” ہے، بلکہ “قابلِ فخر”۔

اب محافظوں سے پناہ مانگنی پڑتی ہے، اور قانون کی دیوی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی پہچان لیتی ہے کہ کسے بچانا ہے اور کسے بھول جانا ہے۔ وردی اب عزت کا نشان نہیں رہی — وہ ایک ایسا نقاب بن چکی ہے جس کے پیچھے اختیار سانس لیتا ہے اور انصاف دم گھٹ کر مر جاتا ہے۔

یہاں سانس لینا بھی خوش نصیبی ہے، اگر وہ سوال کے بغیر ہو۔ اور سوال کرنا، ایسا سفر ہے جو یا تو خاموشی کے اندھیرے میں ختم ہو جاتا ہے یا لاپتہ لمحوں کی گنتی میں۔ عدالتیں کبھی کتابوں کی روشنی میں فیصلہ سناتی تھیں، اب وہ فیصلے شاید کسی اور کمرے میں لکھے جاتے ہیں — جہاں دلیل نہیں، مرضی بولتی ہے۔

اور ان سب کے بیچ، ایک خاموش دل ہے — جو اب بھی دعا مانگتا ہے، جو اب بھی کسی سحر کے انتظار میں ہے، جو جانتا ہے کہ مٹی میں بیج دفن ہو بھی جائے، اگر بارش وقت پر ہو، تو کونپل ضرور نکلتی ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top