خوشی کی گمشدہ چابی

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

یہ دنیا ایک عجیب سراب ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی تلاش میں سرگرداں ہیں، مگر جس چیز کو پانے کی آرزو میں زندگی گزار دیتے ہیں، وہ مل جانے کے بعد اکثر اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ یہ انسانی نفسیات کا وہ تضاد ہے جو ہمیں کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ ہم ان چیزوں کی قدر نہیں کرتے جو ہمارے پاس ہوتی ہیں، اور ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو ہمارے دائرۂ دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔

یہ کیسا کھیل ہے جہاں خالی ہاتھ لوگ سب کچھ پانے کی تگ و دو میں ہیں، اور بھرے ہاتھ والے اپنی مٹھی میں پڑی دولت کی ناقدری کر رہے ہیں؟ جس کے پاس کچھ نہیں، وہ ایک لمحہ خوشی کے لیے ترستا ہے، اور جس کے پاس سب کچھ ہے، وہ خوشی کو کسی اور منزل پر تلاش کر رہا ہے۔ ایک پیاسا شخص ایک گھونٹ پانی کے لیے تڑپتا ہے، جب کہ وہی پانی کسی اور کے لیے محض ایک عام سی چیز ہے۔ ایک بےگھر شخص صرف چھت کی تمنا کرتا ہے، جب کہ محل میں رہنے والا انسان اس میں بھی سکون سے محروم ہوتا ہے۔

خوشی کی چابی نہ دولت میں ہے، نہ کامیابی میں، نہ رشتوں میں اور نہ ہی خواہشات کی تکمیل میں—یہ تو محض “قدر” میں ہے۔ جو کچھ بھی میسر ہے، اگر اس کو دل سے محسوس کر لیا جائے، تو یہی سب کچھ کافی ہو جاتا ہے۔ لیکن انسان کی آنکھ ہمیشہ اُس طرف دیکھتی ہے جہاں روشنی کم ہو، وہ ہمیشہ اُس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے جو اُس کے پاس نہیں، اور اس سفر میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو اس کے پاس تھا، وہی کسی اور کے لیے زندگی کی سب سے بڑی نعمت تھی۔

یہ زندگی اتنی پیچیدہ نہیں جتنی ہم نے بنا رکھی ہے۔ خوشی کی چابی ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں تھی، مگر ہم نے اسے خواہشات کی گٹھری میں کہیں دفن کر دیا ہے۔ اگر ہم صرف ایک لمحے کے لیے رک کر دیکھیں، تو شاید ہمیں احساس ہو کہ ہم جو کچھ بھی کھو رہے ہیں، وہ درحقیقت ہماری اپنی ہی ناقدری کا نتیجہ ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top