خوشیوں کا بوجھ

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ہم اکثر روتے وقت ہلکے ہو جاتے ہیں،
لیکن خوشی کے لمحے… وہ کئی بار بوجھ بن جاتے ہیں۔
کیا یہ عجیب نہیں کہ جس شے کو ہم نے ہمیشہ روشنی، راحت، اور رہائی سمجھا —
وہی خوشی جب کبھی آتی ہے، تو اسے سنبھالنا، دکھ سے زیادہ مشکل لگتا ہے؟
خوشیوں کا بھی اپنا ایک بوجھ ہوتا ہے۔
یہ بوجھ دوسروں کی محرومیوں کا،
اپنے گزرے دکھوں کا،
یا اس اندیشے کا ہوتا ہے کہ “یہ لمحہ کب چھن جائے گا؟”
ہم ہنستے ہوئے بھی کسی انجانے خوف میں گھرے ہوتے ہیں۔
جیسے مسکراہٹ کے پیچھے کوئی کاتب لکھ رہا ہو:
“یہ عارضی ہے۔”
کبھی ہم خوشی کے اظہار سے صرف اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں کسی کا دل نہ دکھے،
کہیں کسی کے زخم ہرے نہ ہو جائیں،
یا کہیں نظر نہ لگ جائے…
اور یوں خوشی، شکر کا موقع بننے کے بجائے، ایک خاموش بوجھ بن جاتی ہے —
جسے اٹھانا بھی پڑتا ہے،
چھپانا بھی۔
پھر وہ خوشی جو کسی خواب کی تعبیر ہو،
یا کسی بڑی قربانی کا حاصل —
وہ تو بوجھ اور بھی بھاری ہوتی ہے۔
کیونکہ وہ صرف مسرت نہیں،
ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔
کبھی خوشی کے لمحات میں ہم ان چہروں کو یاد کرنے لگتے ہیں
جو آج ہمارے ساتھ نہیں،
یا وہ لمحے جو ہم نے کبھی کھو دیے تھے۔
یوں خوشی کا لمحہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ادھورا محسوس ہونے لگتا ہے۔
تو کیا خوشی واقعی بوجھ ہے؟
شاید نہیں۔
شاید یہ بوجھ نہیں، وزن ہے —
جیسے کسی امانت کا وزن،
جسے سنبھال کر جینا پڑتا ہے۔
خوشی کو ہلکا بنانے کا راز یہ ہے کہ ہم اسے بانٹ دیں —
نہ صرف مسکراہٹوں میں، بلکہ یادوں، لمحوں، لفظوں، اور آنکھوں کی نمی میں بھی۔
تبھی شاید خوشی کا بوجھ رحمت کا لمس بن جائے —
ایسا لمس، جو دل کو جھکا دے…
اور روح کو اٹھا لے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top