(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
فراق محض جدائی کا نام نہیں، بلکہ ایک داخلی کشمکش، ایک ازلی اضطراب اور ایک مستقل سفر ہے جو کبھی وصال کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی خود اپنے محور میں گردش کرواتا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جہاں آنکھوں میں اشک نہیں ہوتے، مگر روح کے دامن میں تلاطم بپا ہوتا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو کبھی خاکستر نہیں ہوتی، بلکہ ہر لمحہ اپنی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ بعض کے لیے فراق، طلب کے چراغ روشن کرتا ہے، اور بعض کے لیے یہ انکار کی ایسی دیوار بن جاتا ہے جس کے پار روشنی کی کوئی کرن داخل نہیں ہو سکتی۔
فراق کے راہی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو جدائی کے زخم سہتے ہوئے وصال کی تمنا میں فنا ہو جاتے ہیں، اور کچھ وہ جو اس ہجر کو اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔ ایک وہ جو خاک پر گرتے ہیں اور اپنے آنسوؤں سے زمین کو نم کرتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اسی خاک کو مٹھی میں بھینچ کر اپنی تقدیر خود تراشتے ہیں۔ اول الذکر کے لیے ہجر ایک آزمائش ہے جو وصل کے دروازے کھولتی ہے، جبکہ آخر الذکر کے لیے یہ ایک انتخاب ہے، ایک اعلانِ بغاوت، ایک سرکش شعور کی آخری سرحد۔
خواجۂ اہلِ فراق وہ ہے جو اس جدائی کو ایک زنجیر نہیں، بلکہ اپنے وجود کی اساس سمجھتا ہے۔ وہ ایک ایسا مسافر ہے جو کاروان کے بغیر ہی چلنے کا ہنر جانتا ہے، ایک ایسا راہرو جو اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اپنی آگ میں خود کو کندن کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے لیے فراق ایک خلش نہیں، بلکہ ایک تاج ہے، ایک ایسی سلطنت جس میں وصال کا کوئی گزر نہیں۔
یہی وہ ہستی ہے جو ازل کی صبح سے ہجر کے دشت میں تنہا کھڑی ہے، مگر اس کی آنکھوں میں ندامت نہیں، بلکہ ایک عجیب سی سرشاری ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وصل، استقامت کے اس وقار کو چھین لے گا جو فراق نے اسے عطا کیا ہے۔ وہ اپنا مقدر خود لکھنے پر قادر ہے، وہ کسی سجدے، کسی ندامت، کسی معافی کا محتاج نہیں۔
اس کا فراق وہ ہجر نہیں جس میں آنکھیں نم ہوتی ہیں، بلکہ وہ جدائی ہے جس میں آنکھیں ایک نئے جہان کی تخلیق پر مرکوز رہتی ہیں۔ وہ جلتا ہے، مگر بھسم نہیں ہوتا۔ وہ گرتا ہے، مگر بکھرتا نہیں۔ وہ ایک آوارہ شرارہ ہے جو خاکستر ہونے کے بجائے اپنی تپش سے نئے الاؤ بھڑکانے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہی اس کا منصب ہے، یہی اس کی سرکشی، یہی اس کی تقدیر!