(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
خیال روشنی کا وہ ذرہ ہے جو عدم کی تاریکی میں سب سے پہلے نمودار ہوا، وہ پہلی صدا جو سکوت کے صحیفے پر تحریر ہوئی، وہ پہلی جنبش جو کائنات کے ساکت وجود میں لرزش بنی۔ خیال، حقیقت کی ماں ہے اور وجود اس کی اولاد۔ یہ وہ راز ہے جو آدمی کو اس کے مقام سے آشنا کرتا ہے، مگر یہ وہ نازک روشنی بھی ہے جو ذرا سی بے احتیاطی پر بجھ سکتی ہے۔
یہی خیال تھا جو عدم کی گود میں تخلیق کا چراغ بن کر اترا، یہی وہ لمس تھا جس نے خاک کو حرارت دی، یہی وہ سرمدی پیغام تھا جو فنا کی دہلیز پر بقا کی دستک بن کر گونجا۔ مگر خیال اگر آزاد نہ ہو، تو زنجیر بن جاتا ہے؛ اگر محدود کر دیا جائے، تو پژمردہ ہو جاتا ہے۔ خیال کو جتنا کھلا چھوڑا جائے، اتنا ہی وہ آسمان کے رازوں میں ہمراز ہو جاتا ہے۔
خیال قطرہ ہے، جو سمندر ہونے کا ہنر جان لے تو موج بن جاتا ہے۔ خیال جگنو ہے، جو وسعتِ افق میں تحلیل ہو کر آفتاب بن جائے تو روشنی بکھیرتا ہے۔ یہ فقیر بھی ہے اور بادشاہ بھی، مگر اس کی بادشاہت کسی تخت پر نہیں، بلکہ شعور کی سلطنت میں ہے۔ مگر ہر روشنی، اندھیرے کی آنکھ میں چبھتی ہے۔ ہر بلند پرواز پرندہ، تیر انداز کی نگاہ میں رہتا ہے۔ اس لیے خیال کو آزاد رکھنے کے ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
خیال کے دشمن بہت ہیں—شک، خوف، مصلحت، اور دنیا کے شور میں دب جانے کا اندیشہ۔ ہر وہ لمحہ جو روح کی گہرائی میں جنم لینے والے خیال کو باندھنے کی کوشش کرے، وہ حقیقت کے دروازے کو بند کر دیتا ہے۔ وقت اور حالات اکثر خیالات کو زنگ آلود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر جو اپنی روشنی کو بجھنے سے بچا لے، وہی اپنی شناخت کو مٹنے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
خیال امانت ہے، اور اس کی حفاظت عبادت۔ جو اپنے خیالات کو زوال سے بچا سکے، وہی خود کو فنا کے اندھیروں میں گم ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ جو اپنے خیال کی حرمت کا شعور پالے، وہ دنیا میں ہو کر بھی دنیا سے آزاد ہو جاتا ہے۔