کیوں مجھے رُلا رُلا دیا میری جان اسکا جواب دے
اپنے پاس رکھ یہ رومال تُو میرے آنسوؤں کا حساب دے
تیرے ساتھ نسبت کیا ہے میری یہ نہ اب تک طے ہوا
تیری جان ہوں کہ آزارِ جاں ،میرے شاہ کچھ تو خطاب دے
تیری راہ تکتے عمر کٹی، منظر بھی سارے دھندلا چلے
میرے یوسف میری آنکھوں کو، دیدار دے یا سیلاب دے
پردیس ہے تو کیا ہوا، کبوتروں کا تو دور نہیں
دے لبوں کو ہلکی سی ایک جنبش، میری عرضیوں کا جواب دے
تیری دوستی کے نہیں جو قابل، چلو نعیم یونہی سہی
تیرے عدو سے ہے مجھے دشمنی، اس بات کا تو ثواب دے