کس درجہ کاری وار کرتا ہے
میرے بچّوں سے پیار کرتا ہے
اس قدر ٹوٹ کے ملتا ہے وہ
برف وادی کو انگار کرتا ہے
زرخیزی کا ہنر خوب جانتا ہے
کشتِ ویراں کو برگ و بار کرتا ہے
جانے کس تاک میں بیٹھا ہے
میری سانسیں شمار کرتا ہے
جانتا ہے تیری مجبوریاں
پھر بھی نعیم انتظار کرتا ہے