کس کس نے ڈال دی ہے مری جاں عذاب میں
ڈوبی تھی ایک سوہنی دل کے چناب میں
وہ کچھ سمجھ سکا نہ کِیا میں نے جو سوال
کہتا رہا کچھ اور ہی اس کے جواب میں
آغازِ دلبری میں ہی اُس نے یہ کہہ دیا
جاں کی نہ ایسے بازی لگاؤ شباب میں
یادوں کو کر گیا بہت اونچا شعور سے
بکھریں حروف بن کے رفاقت کے باب میں
رسوائیوں کے گُل تو کھلانے ہی تھے نعیم
بھولا تھا پھول رکھ کے وہ میری کتاب میں