کسی خیال کی صورت مرے گماں سے نکل
سخن کے تیر ! مرے ہونٹ کی کماں سے نکل
خیال میر یا غالب کا بن کے پاس آ جا
غزل کی شکل میں پھر تُو مری زباں سے نکل
مرے ہی عکس کو کر لینے دے بغاوت اب
اے میرے آئینے اب تُو تو درمیاں سے نکل
یہاں تو حرص و ہوس ڈیرے ڈالنے کو ہے
ترا ہی ہو گا بھلا اب تُو اس مکاں سے نکل
نعیم لوگ ترے منتظر ہیں اور کہیں
دلوں کو چوٹ لگا اور داستاں سے نکل
