کون کہتا ہے بےسبب یاد آیا

غزل

کون کہتا ہے بےسبب یاد آیا
سانس اُکھڑی وہ جب یاد آیا

چاہے بھی تو سو نہیں سکتا
تیرا دُکھ میرے رب یاد آیا

مرے ساتھ کھڑی تھی مری نحیف قسمت
لڑکھڑا کر جو گری تب یاد آیا

کارگر نہ ہوئی نفرت کی جب کوئی ترکیب
شاہِ وقت کو اچانک مذہب یاد آیا

گناہِ کبیرہ کی حسرت کے روبرو نعیم
تُو مجھے تا حدِ ادب یاد آیا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top