(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
زندگی ایک چکر ہے، ایک ایسا دائرہ جس کے ہر موڑ پر کوئی پرانا لمحہ کسی نئے روپ میں لوٹ آتا ہے۔ ہندو عقیدۂ تناسخ کے مطابق، ہر موت ایک نئے جنم کی تمہید ہے، ہر انجام کسی نئی شروعات کا دروازہ۔ مگر اگر انسان خود اپنے وجود کی لکیر کو مٹا دے، تو کیا وہ واقعی مکتی (نجات) پا لیتا ہے؟ یا پھر یہ عمل اسے ایک اور بھٹکتی ہوئی یاترا میں دھکیل دیتا ہے؟
ہندو فلسفہ کہتا ہے کہ زندگی محض ایک جسمانی تجربہ نہیں بلکہ ایک کرمک (عمل اور نتیجے) کا تسلسل ہے۔ جو بھی ہم اس زندگی میں کرتے ہیں، وہ ہمارے اگلے جنم کا تعین کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر دیتا ہے، تو کیا وہ اس چکر سے آزاد ہو جاتا ہے، یا پھر اپنے ادھورے کرموں کے باعث ایک اور جدوجہد میں گرفتار ہو جاتا ہے؟
تصور کیجیے کہ ایک جلتا ہوا چراغ اچانک بجھا دیا جائے۔ اس کی روشنی ختم ہو جاتی ہے، مگر کیا اندھیرا ہمیشہ کے لیے قائم رہ سکتا ہے؟ نہیں، کوئی نہ کوئی نیا چراغ جلے گا، روشنی کا کوئی نہ کوئی نیا منبع پیدا ہوگا۔ تناسخ کا اصول بھی یہی کہتا ہے: زندگی کو زبردستی ختم کر دینے سے روح کا سفر نہیں رک جاتا، بلکہ وہ کسی اور جسم، کسی اور حالات میں لوٹ آتی ہے۔ مگر جو زخم پہلے ادھورے رہ گئے تھے، وہ نئے وجود میں اپنی کسک چھوڑ جاتے ہیں۔
قدیم ویدانت کہتی ہے کہ حقیقی مکتی وہ نہیں جو جسم سے فرار میں ہے، بلکہ وہ جو شعور کی بلندی سے حاصل ہو۔ جو شخص زندگی کے درد سے گھبرا کر خود کو مٹا دیتا ہے، وہ درحقیقت اس چکر میں خود کو مزید الجھا دیتا ہے۔ حقیقی معراج وہ ہے جہاں انسان اپنے کرموں کے بوجھ کو سمجھ کر انہیں نروان میں بدل دے، جہاں زندگی اور موت کا فرق مٹ جائے، اور روح اپنی اصل حقیقت کو پا لے۔
اگر معراج کا مطلب نجات ہے، تو وہ تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب انسان اپنی ذات کے اندھیروں کا سامنا کرے، اپنی کمزوریوں کو سدھارے، اور اپنے کرموں کو ایک نئی روشنی میں پروان چڑھائے۔ خودکشی، شاید، اس دائرے کو توڑنے کی ایک ناکام کوشش ہے، مگر یہ دائرہ آسانی سے نہیں ٹوٹتا۔ وہ روح جو اپنے امتحان سے فرار چاہتی ہے، وہ اگلے جنم میں ایک اور مشکل صورتِ حال میں آنکھ کھولتی ہے۔
تو کیا خودکشی معراج ہے؟
نہیں، کیونکہ معراج کا راستہ بھاگنے میں نہیں، سمجھنے میں ہے۔ وہ جو جینا سیکھ لیتا ہے، وہی مرنے کے بعد بھی سکون پاتا ہے۔ اور وہ جو جینا چھوڑ دیتا ہے، وہی پھر کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے بوجھ تلے واپس آتا ہے، کسی اور روپ میں، کسی اور کہانی میں، مگر انہی ادھورے سوالوں کے ساتھ۔
زندگی کے اس چکر کو زبردستی توڑنے کی بجائے، اسے شعور کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرو۔ شاید اسی میں وہ مکتی چھپی ہو، جو تمہیں واقعی معراج پر پہنچا سکے۔