کیا تو نے دکھ کا نام بیٹی رکھا تھا؟

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

بیٹی—یہ محض ایک لفظ نہیں، بلکہ محبت، قربانی اور شفقت کا استعارہ ہے۔ وہ معصوم ہنسی جو ماں کی گود میں گونجتی ہے، وہ ننھے قدم جو باپ کے کندھوں پر چڑھ کر دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہیں، وہ نرم دل جو ہر دکھ کو مسکراہٹ میں سمو لینا جانتا ہے۔ مگر جب یہی بیٹی سماج کے بے رحم رویوں کی بھینٹ چڑھتی ہے، تو اُس کے دکھ کی شدت الفاظ کی سرحدوں کو توڑ دیتی ہے۔ بیٹی محض ایک رشتہ نہیں، بلکہ ایک آزمائش ہے، ایک امتحان ہے، ایک قربانی ہے جو صدیوں سے دی جا رہی ہے۔

یہ دکھ اُس دن جنم لیتا ہے جب ایک باپ کے چہرے پر فکر کی لکیریں یہ سوچ کر ابھرتی ہیں کہ اُس کی بیٹی کا نصیب کیا ہوگا؟ جب ماں اپنی بیٹی کو دعاؤں کے سائے میں چھپا لیتی ہے، مگر جانتی ہے کہ یہ سائے ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ وہ دکھ ہے جو صدیوں سے خاموشی میں دبایا جا رہا ہے، وہ آنسو ہے جو حیا کی چادر میں جذب ہو جاتا ہے، وہ بوجھ ہے جو کندھوں پر نہیں، دل پر رکھا جاتا ہے۔

بیٹی کا دکھ اُس وقت شدت اختیار کر لیتا ہے جب اُسے اپنے ہی گھر میں پرایا سمجھا جانے لگے، جب اُس کے خوابوں کو “ذمہ داری” کے ترازو میں تولا جائے، جب اُس کی مسکراہٹ کو مستقبل کے خدشات میں چھپا دیا جائے۔ اور یہ دکھ اُس دن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے جب باپ بیٹی کو رخصت کرتے وقت مسکرا کر کہتا ہے، “یہ تیرا گھر ہے، بیٹی!” مگر اندر ہی اندر جانتا ہے کہ اب اُس کی بیٹی کے آنسو کسی کو نظر نہیں آئیں گے، اُس کے دکھ کسی شمار میں نہیں آئیں گے۔

وہ جو روشنی کی کرن تھی، وہ جو خوشبو کی لہر تھی، وہ جو چاندنی کی چمک تھی، اُسے صبر، حیا، قربانی اور مصلحت کے درس دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ وہ جو کبھی تتلیوں کے پیچھے بھاگتی تھی، جو ماں کی گود میں چھپتی تھی، جو باپ کے سائے میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی، ایک دن کسی اور آنگن میں سونپ دی جاتی ہے، کہ “یہ تیرا گھر ہے!” مگر یہ گھر اُس کے لیے ہمیشہ اجنبی رہتا ہے، اُس کے قدموں تلے زمین اکثر لرزتی رہتی ہے، اور اُس کا دل ہر لمحہ کسی انجانے خوف میں دھڑکتا رہتا ہے۔

بیٹی کا سفر قربانیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی سرزمین ہے۔ کبھی شوہر کی نظراندازی، کبھی ساس کے طعنے، کبھی نندوں کی تلخیاں، اور کبھی سسرال کے اصولوں کے بوجھ تلے وہ خود کو کھوتی چلی جاتی ہے۔ وہ جو چہکنے والی چڑیا تھی، اب خاموش ہو کر آنکھوں میں درد کا دریا سمیٹ لیتی ہے۔

والدین، جو بیٹی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، شادی کے بعد بے بسی کی اُس حد پر جا کھڑے ہوتے ہیں جہاں بیٹی کا ہر آنسو اُن کے دل پر برستا ہے، مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ دعا کرتے ہیں، صبر کی تلقین کرتے ہیں، سمجھوتے کا درس دیتے ہیں، مگر یہ سب بیٹی کے اندر بجھتی روشنی کو واپس نہیں لا سکتا۔

اصل دکھ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ بیٹی، جو رخصت ہوتے وقت باپ کی دہلیز سے ہنستی ہوئی نکلی تھی، ایک دن اُسی دہلیز پر آنسوؤں کے بوجھ تلے بکھر کر لوٹ آتی ہے۔ وہ، جو ایک مکمل کہانی تھی، اب محض ٹوٹے ہوئے جملوں کا مجموعہ رہ جاتی ہے۔ اُس کے وجود پر سسرال کی دی ہوئی اذیتوں کے نشان ہوتے ہیں، اُس کی آنکھوں میں سوال ہوتے ہیں، اور اُس کے الفاظ میں ایک ایسی چُپ ہوتی ہے جو دل چیر کر رکھ دیتی ہے۔

یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب والدین ٹوٹ جاتے ہیں، جب اُن کے ارمانوں کی دنیا خاک میں مل جاتی ہے، جب وہ خود کو قصوروار سمجھتے ہیں کہ اُن کی بیٹی جو کبھی اُن کے گھر کی رونق تھی، آج ایک ٹوٹی ہوئی، بکھری ہوئی، شکستہ روح بن کر واپس آ گئی ہے۔ وہ بیٹی جو کبھی اُن کا مان تھی، آج بے بسی کی ایک تصویر بن کر اُن کے سامنے کھڑی ہے، اور وہ اُس کی نگاہوں میں وہ سوال پڑھ لیتے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں۔
اس مقام پر والدین کا دل بے بسی کے سجدے میں خدا سے پوچھ رہا ہوتا ہے،
کیا تو نے دکھ کا نام بیٹی رکھا تھا ؟!
یہ فقط اک سوال نہیں، یہ ایک چیخ ہے، ایک ماتم ہے جو صدیوں سے والدین کے دلوں میں دفن ہوتا آیا ہے۔ مگر شاید، یہ دنیا کبھی نہ سمجھ سکے کہ بیٹی کا دکھ دراصل وہ بوجھ ہے جو والدین کے دل پر آخری سانس تک رکھا رہتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top