لحاظ اتر گیا دل سے تو ڈر نہ رہا
مکان تھا بس اسی لئے وہ گھر نہ رہا
مفاہمت میں دیے نے سر جھکا لیا
ہوائے تند کے سامنے امر نہ رہا
رفتہ رفتہ ہٹانے لگ گیا تھا قدم
وہ وقت آ گیا کہ ہم سفر نہ رہا
تھا سارا خوف ساحل کے شور تلک
جو لہریں پاؤں میں باندھیں تو بھنور نہ رہا
تھا تو وہ چاند مگر صغیر سن ابھی
وہ میرے ساتھ نعیم تا سحر نہ رہا