لوگ سمجھے ہیں جان توڑی ہے
اس نے میری تھکان توڑی ہے
اب کہیں درد رکھ نہ پاؤں گا
میں نے اپنی مچان توڑی ہے
یونہی میں مطمئن نہیں خود سے
میں نے اندر کی آن توڑی ہے
وہ ڈرانے لگا تھا لوگوں کو
اس کی بس یہ اٹھان توڑی ہے
دھوکہ اس کو نعیم کہتے ہیں
اس نے دے کر زبان توڑی ہے
