لطف و کرم کیا دار پہ چڑھ کر مانگے ہے
جاتے جاتے کیا دل ، مضطر مانگے ہے
اِس کو بت خانہ تو راس نہیں آیا
جیون رہنے کو بھی اک گھر مانگے ہے
درد کی لذت سے کب جی بھرتا ہو گا
اشک بہانے کو دل ساگر مانگے ہے
جاہ و حشمت ہو گی خاک سبھی اک دن
کیوں انساں پھر ہر چوٹی سر ، مانگے ہے
کام کریں گے تیرے شیریں بول نعیم
تیشہ تھام کے تُو کیوں پتھر مانگے ہے
